دوسرا دشمن اور آفت، کسی نظام کا اندرونی طور پر انتشار کا شکار ہونا ہے؛ یعنی نظام کے اندر انتشار پیدا کرنا یہ غیروں کا کام نہیں، بلکہ یہ اپنوں کا کام ہوتا ہے۔ اپنے لوگ ہی کسی نظام میں رہتے ہوئے اس نظام سے اکتا جانے، سمجھنے میں غلطی کر جانے، خواہشات کے غالب آجانے یا مادی جلوؤں کا اسیر ہو جانے کی وجہ سے، اتفاقی طور پر اس آفت کا شکار ہوجاتے ہیں، البتہ پہلے والے دشمن کے مقابلے میں اس کے نقصانات زیادہ ہوتے ہیں۔

یہ دونوں قسم کے دشمن، یعنی بیرونی اور اندرونی دشمن کسی بھی نظام، تنظیم اور قدرت کے مظہر کے مقابلے میں موجود ہوتے ہیں، لہٰذا اسلام نے ان دونوں قسم کے دشمنوں سے نمٹنے کے لیے ’’جہاد‘‘ کو ان کا علاج قرار دیا ہے، جو صرف بیرونی دشمن کے لیے نہیں ہے۔ ارشادِ الہٰی ہے: ’’جَاھِدِ الکُفَّارَ وَ المُنَافِقِین‘‘ منافق ہمیشہ خود کو کسی نظام کے اندر قرار دیتا ہے، لہٰذا اِن سب سے جہاد کرنا چاہیے۔ جہاد ہمیشہ اس شخص سے کیا جاتا ہے جو نظام پر یقین نہ رکھنے اور اسے دشمن سمجھنےکی وجہ سے اس پر حملہ آور ہوتا ہے۔ اسی طرح اندرونی انتشار اور ٹوٹ پھوٹ کا مقابلہ کرنے کے لیے، بے شمار قیمتی اخلاقی تعلیمات موجود ہیں، جو دنیا کی حقیقت سے انسان کو آگاہ اور خبردار کرتی ہیں۔

اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ (سورہ حدید، آیت 20)

یعنی اگرچہ یہ دُنیوی مال و دولت،یہ آرائشی اور تجملاتی اشیاء، یہ دُنیوی لذّتیں ہمارے لیے ضروری ہیں، کیونکہ ان سے استفادہ کرنا ہماری مجبوری بھی ہے اور ضرورت بھی۔ اس لیے کہ ہماری زندگی انہیں چیزوں سے وابستہ ہے اور اِس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہمیں چاہیے کہ انہیں اپنے لیے حاصل کریں، یاد رکھیں کہ صرف انہیں کو ہدف قرار دیتے ہوئے آنکھیں بند کرکے ان ضروریات کے پیچھے چلے جانا اور اپنے اصلی ہدف کو بھول جانا، انتہائی خطرناک چیز ہے۔

حوالہ: [کتاب] ڈھائی سو سالہ انسان [مؤلف] امام خامنه ای [ص] 176 [پبلشر] انتشارات آستان قدس رضوی [ایڈیشن] 1 [ﭘﺮﻧﭧ] 1 [پرنٹر] مؤسسہ چاپ وانتشارات آستان قدس رضوی