حضرت امام علی نقی علیہ السلام کے دور میں اِسی سامراء شہر میں بزرگ شیعہ ایک خاصی بڑی تعداد میں جمع ہو گئے تھے اور امامؑ انہیں منظّم کرنے کے ذریعے (خطوط اور دیگر ذرائع سے) امامت کے پیغام کو پورے عالمِ اسلام تک پہنچانے میں کامیاب ہوئے۔ قم، خراسان، رئے، مدینہ، یمن، اور دیگر دُور دراز کے علاقوں اور پوری دنیا میں اِنہیں افراد نے شیعہ مکتبِ فکر کو پھیلایا اور اس مکتب پر ایمان رکھنے والے افراد کی تعداد میں روز بروز اضافہ کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ حضرت امام علی نقی علیہ السلام نے یہ تمام کام انہیں چھ خلفاء کی خونچکاں شمشیروں کے سائے تلے اور ان کی مرضی کے بر خلاف انجام دیئے ہیں۔ حضرت امام علی نقی علیہ السلام کی شہادت کے بارے میں ایک معروف حدیث ہے جس کی عبارت سے پتہ چلتا ہے کہ سامراء میں اچھی خاصی تعداد میں شیعہ اس طرح سے اکٹھے ہو گئے تھے کہ دربارِ خلافت انہیں پہچان نہیں پاتا تھا، کیونکہ اگر وہ انہیں پہچان جاتا تو ان سب کو تہ تیغ کر دیتا۔ لیکن چونکہ ان افراد نے اپنا ایک مضبوط نیٹ ورک بنا لیا تھا اس لیے خلافت بھی ان لوگوں کی شناخت نہیں کرسکتی تھی۔

اِن عظیم شخصیات (آئمہ معصومین علیہم السلام) کی ایک دِن کی سعی و کوشش، برسوں کا اثر رکھتی تھی، اِن کی مبارک زندگی کا ایک دِن، برسوں تک کام کرنے والے ایک گروہ کی کار کردگی سے زیادہ معاشرے پر اثر ڈالتا تھا۔ آئمہ اطہار علیہم السلام نے اِس طرح دین کی حفاظت کی؛ ورنہ جس دین کے علمبردار متوکل، معتز اور مامون جیسے افراد ہوں اور جس کے علماء یحییٰ ابنِ اکثم جیسے لوگ ہوں جو دربارِ خلافت کے عَالمِ دین کہلانے کے باوجود، انتہائی درجے کے فاسق و فاجر تھے، ایسی صورت حال میں دین کو تو بالکل بچنا ہی نہیں چاہیے تھا اور انہیں ابتدائی ایام میں اِس کی بیخ کنی ہو جانی چاہیے تھی، اِس دین کا خاتمہ بخیر ہو جانا چاہیے تھا۔ لیکن آئمہ طاہرین علیہم السلام کی اِس جدّوجہد اور سعی و کوشش نے نہ صرف تشیع کا، بلکہ قرآن مجید، اسلام اور دینی تعلیمات کا بھی تحفّظ کیا۔ یہ ہے خدا کے خالص، مخلص بندوں اور اولیائے الٰہی کی خصوصیات۔

حوالہ: [کتاب] ڈھائی سو سالہ انسان [مؤلف] امام خامنه ای [ج] 1 [ص] 419 [پبلشر] انتشارات آستان قدس رضوی [ایڈیشن] 1 [ﭘﺮﻧﭧ] 1 [پرنٹر] مؤسسہ چاپ وانتشارات آستان قدس رضوی