ذرا ملاحظہ کیجئے کہ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا نے بچپن سے لیکر شہادت کی اپنی مختصر زندگی کس طرح بسر کی ہے؟ اپنی شادی سے قبل کہ جب آپؑ ایک چھوٹی سی لڑکی تھیں، تو نور و رحمت کے پیغمبرؐ، دنیائے نور کو متعارف کرانے والی عظیم شخصیت اور عظیم عَالَمی انقلاب کے رہبر و منتظم کے ساتھ کہ جن کا انقلاب تا قیامت باقی رہے گا، جس دن سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے پرچمِ توحید بلند کیا، حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا نے ایسا برتاؤ کیا کہ آپؑ کی کنیت ’’اُمِّ ابیہا‘‘ اپنے بابا کی ماں پڑ گئی۔ یہ آپؑ کی خدمت، کام، محنت و مشقت اور لازوال جدوجہد کی روشن دلیل ہے، ورنہ بغیر کسی وجہ کے تو آپؑ کو ’’اُمِّ ابیہا‘‘ نہیں کہا گیا؛ خواہ وہ مکہ کے شب و روز ہوں یا شعبِ ابی طالبؑ کے اقتصادی اور معاشی بائیکاٹ کے سخت ترین ایام یا وہ تکلیف دہ وقت جب آپؑ کی والدہ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا، حضرت رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کو تنہا چھوڑ گئیں اور پیغمبرِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلّم کے قلب مبارک کو مختصر عرصے میں دو صدمے اُٹھانے پڑے، یعنی حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا اور حضرت ابوطالب علیہ السلام کی پے در پے وفات۔ ایسے کڑے اور مشکل وقت میں حضرت زہراء سلام اللہ علیہا آگے بڑھیں اور اپنے ننھے ہاتھوں سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے چہرۂ مبارک پر پڑے غم و اندوہ کے گرد و غبار کو صاف کیا اور اپنے بابا کی تسلّی خاطر کاسبب بنیں۔ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی جدوجہد یہاں سے شروع ہوئی اور آپؑ کو ان ایام میں اِس لقب سے نوازا گیا. غور کیجئے کہ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی شخصیت اور جدوجہد کا یہ پہلو کتنا تابناک ہے۔

حوالہ: [کتاب] ڈھائی سو سالہ انسان [مؤلف] امام خامنه ای [ص] 125 [پبلشر] انتشارات آستان قدس رضوی [ایڈیشن] 1 [ﭘﺮﻧﭧ] 1 [پرنٹر] مؤسسہ چاپ وانتشارات آستان قدس رضوی