آپ علیہ السلام نے اپنی ذمہ داریوں کو نبھاتے وقت ذرّہ برابر بھی خود خواہی اور شخصی مفادات کو مدّنظر نہیں رکھا، بلکہ آپؑ نے جس راستے کا انتخاب کیا تھا ہمیشہ اسی پر ہی چلتے رہے۔ لہٰذا حقیقت میں امیرالمومنین علیہ السلام میزانِ حق ہیں۔ یہ ہے امیرالمومنین علیہ السلام کی زندگی۔ وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّـهِ۔ اور لوگوں میں وہ بھی ہیں جو اپنے نفس کو مرضی پروردگار کے لئے بیچ ڈالتے ہیں۔(سورہ بقرہ، آیہ،207) کی آیت صرف آپؑ کی شہادت سے متعلق نہیں ہے کہ آپؑ نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان قربان کر دی (بلکہ) آپؑ نے تو اپنی پوری زندگی کو اللہ کے لیے وقف کر رکھا تھا۔(28۔04۔1989)

اِس اہم نکتے پر توجہ مرکوز رکھنا ضروری ہے۔ امیرالمومنین علیہ السلام نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ اسلامی اصول اور دینی اقدار جو اسلام کے گوشہ نشینی کے دور میں اور ایک چھوٹے سے اسلامی معاشرے کے لیے وضع کیے گئے تھے وہ اصول ایک ترقی یافتہ اور وسیع اسلامی معاشرے کے لیے بھی کار آمد ہیں۔ اسلامی اصول، عدالتِ اسلامی، انسانیت کا احترام، جہاد کا جذبہ، اسلامی اور اخلاقی اقدار جو پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کے دور میں وحی الٰہی کی صورت میں نازل ہو چکے تھے اور آپؑ ہی کے ذریعے ممکن حد تک اسلامی معاشرے پر نافذ ہو چکے تھے، لیکن پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کے دور کا اسلامی معاشرہ کتنا وسیع تھا؟ دس سال تک تو اسلامی معاشرہ صرف مدینہ تک محدود تھا جو چند ہزار افراد پر مشتمل تھا اور اس کے بعد جب مکہ اور طائف کو فتح کر لیا گیا تب بھی اسلامی مملکت ایک چھوٹے سے علاقے تک محدود تھی جس کے پاس محدود مال و دولت، وسائل کی انتہائی کمی اور ہر طرف غربت ہی غربت تھی، ایک ایسے معاشرے میں اسلامی اقدار کی بنیاد رکھی گئی تھی۔۔۔

حوالہ: [کتاب] ڈھائی سو سالہ انسان [مؤلف] امام خامنه ای [ج] 1 [ص] 97 [پبلشر] انتشارات آستان قدس رضوی [ایڈیشن] 1 [ﭘﺮﻧﭧ] 1 [پرنٹر] مؤسسہ چاپ وانتشارات آستان قدس رضوی