امیرالمومنین امام علی علیہ السلام نے ایک محاذ پر دھوکہ بازوں، فریب کاروں اور مال و دولت کے پجاریوں سے جنگ لڑی تو دوسرے محاذ پر آپؑ کا مقابلہ اسلام کے جانے پہچانے اور معتبر چہروں سے تھا اور تیسرے محاذ پر آپؑ کا سامنا ایسے لوگوں سے تھا کہ جنہوں نے تقدّس کا نقاب اُوڑھا ہوا تھا، جو بظاہر بڑے عبادت گزار تھے لیکن حقیقت میں وہ روحِ اسلام اور تعلیماتِ اسلامی سے نا آشنا تھے اور امیر المومنین علیہ السلام کے مقام و منزلت کو بھی نہیں پہچانتے تھے اور یہ انتہائی سخت دل اور بداخلاق لوگ تھے۔

امیرالمومنین علیہ السلام نے تین محاذوں پر تین الگ الگ نظریات کے حامل لوگوں؛ یعنی ناکثین، قاسطین اور مارقین سے جنگ کی ہے۔ ان میں سے ہر ایک واقعہ درحقیقت آپؑ کے اللہ تعالیٰ کی ذات پر توکّل، ایثار اور خود خواہی سے دوری کا واضح ثبوت ہے اور آخر کار آپؑ نے اِسی راستے پر جامِ شہادت نوش فرمایا۔ اِس لیے آپؑ کے بارے میں کہا گیا کہ امام علی علیہ السلام کو ان کے عدل و انصاف نے خاک و خون میں غلطاں کیا ہے۔

اگر امیرالمومنین علیہ السلام چاہتے تو مصلحت پسندی سے کام لیتے ہوئے عدل و انصاف کو پسِ پشت ڈال دیتے اور اسلامی اصولوں اور دینی اقدار پر اپنی شخصیت اور شان و مقام کو ترجیح دیتے، تو آپؑ کا شمار مقتدر ترین اور کامیاب ترین خلفاء میں ہوتا اور کسی کو آپؑ کے مقابلے میں آنے کی ہمّت بھی نہ ہوتی، لیکن امیرالمومنین علیہ السلام چونکہ حق و باطل کا معیار ہیں، لہٰذا جو بھی آپؑ کی پیروی کرتے ہوئے آپؑ کو حق مانتا ہے اور آپؑ ہی کی سیرت پر عمل کرنا چاہتا ہے وہ حق پر ہے اور جو بھی آپؑ کو نہیں مانتا وہ باطل پر ہے۔

حوالہ: [کتاب] ڈھائی سو سالہ انسان [مؤلف] امام خامنه ای [ج] 1 [ص] 96 [پبلشر] انتشارات آستان قدس رضوی [ایڈیشن] 1 [ﭘﺮﻧﭧ] 1 [پرنٹر] مؤسسہ چاپ وانتشارات آستان قدس رضوی