عمار یاسرؓ، جن کے بارے میں، میں اس نتیجے پر پہنچ چکا ہوں کہ صدرِ اسلام میں وہ ایسے حساس، مشکل اور پیچیدہ مسائل کہ جن کے بارے میں لوگ غفلت اور جہالت کا شکار تھے، کا تجزیہ و تحلیل کرنے کے ماہر تھے۔ تاریخِ اسلام میں عمار یاسرؓ کا یہ مقام ہے کہ وہ گہرے اور دقیق مسائل کو سمجھتے تھے۔ اگر ہم مالکِ اشترؓ کو ان کی تلوار اور بہادری سے پہچانتے ہیں، تو ہمیں عمار یاسرؓ کو ان کی فصاحتِ زبان، روشن فکری، درست فہم و ادراک اور صدرِ اسلام کے ایک عظیم تجزیہ نگار کے طور پر جاننا چاہیے۔ امیر المومنین علیہ السلام کے دور میں مجھے ایسے بہت کم موارد ملے جہاں شکوک و شبہات نے جنم لیا ہو اور وہاں عمار یاسرؓ موجود نہ ہوں۔ وہ ایک مافوق الفطرت شخص تھے۔ (جنگِ صفین کے موقع پر بھی جب) عمارِ یاسرؓ کو یہ اطلاع ملی کہ لشکر کے کچھ سپاہی شک و تردید کا شکار ہو چکے ہیں، تو وہ ان کے پاس گئے اور ان کے سامنے کچھ حقائق بیان کیے۔ آپؓ نے اُن پر واضح کیا کہ اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ وہ بھی نماز پڑھتے ہیں اور تم بھی نماز پڑھتے ہو۔ چنانچہ انہوں نے کہا: خدا کی قسم! میں نے ایک اور جنگ میں دیکھا ہے کہ یہی دونوں پرچم جو آج ایک دوسرے کے مقابلے میں کھڑے ہیں، یہ پرچم کہ جس کے نیچے امیر المومنین علیہ السلام موجود ہیں اسی طرح اس پرچم کے مقابلے میں تھا جس کے نیچے معاویہ کھڑا ہے اور وہ جنگِ بدر کا موقع تھا، جس موقعہ پر یہ دونوں پرچم یعنی بنو ہاشم اور بنو امیہ کا پرچم ایک دوسرے کے مدِّمقابل تھے اور اس پرچم کے سایہ تلے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم اور امیر المومنین علیہ السلام تھے اور اُس پرچم کے نیچے یہی معاویہ اور اس کا باپ (ابوسفیان) تھے۔ ان دونوں کے درمیان اصولی اختلاف پایا جاتا ہے لہٰذا آپ لوگ ظاہر کو مت دیکھیں۔ اس طرح (عمار یاسرؓ نے) ان کے ذہنوں سے شکوک و شبہات دور کر دیئے۔

حوالہ: [کتاب] ڈھائی سو سالہ انسان [مؤلف] امام خامنه ای [ص] 157 [پبلشر] انتشارات آستان قدس رضوی [ایڈیشن] 1 [ﭘﺮﻧﭧ] 1 [پرنٹر] مؤسسہ چاپ وانتشارات آستان قدس رضوی