میں نے ایک روایت میں پڑھا ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے نور کی تابندگی سے آسمان کے فرشتوں کی آنکھیں خیرہ ہوجاتی ہیں: ’’زَھَرَ نُورُھَا لِمَلَائِکَۃِ السَّمَاءِ‘‘ ہم اِس چمکتے ہوئے نور سے کیا استفادہ کر سکتے ہیں؟ ہم اس درخشاں ستارے کے ذریعے اللہ تعالٰی اور اس کی بندگی کی راہوں کو تلاش کر سکتے ہیں، جو صراطِ مستقیم ہے، جس راستے کو فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا طے کر کے اس اعلٰی مقام پر پہنچ چکی ہیں، ہم بھی اس راستے کو ڈھونڈ سکتے ہیں۔

اگر اللہ تعالٰی نے آپؑ کے خمیر کو پاک و پاکیزہ قرار دیا ہے تو اس کی دلیل بھی یہی ہے، اللہ تعالٰی اس بات سے بخوبی واقف تھا کہ یہ عظیم ہستی عالمِ ناسوت (عَالَمِ مادہ) میں بھی امتحان کو کامیابی کے ساتھ طے کرنے والی ہے: ’’اِمتَحَنَکِ اللہُ الذِّی خَلَقَکِ قَبلَ اَن یَخلُقَکِ فَوَجَدَکِ لِمَا اِمتَحَنَکِ صَابِرَۃً‘‘ اصل بات یہ ہے کہ اگر اللہ تعالٰی کسی خمیر پر اپنا خصوصی لطف و کرم کرتا ہے تو اس خمیر کے بارے میں جانتا ہے کہ یہ امتحان سے کیسے عہدہ بر آ ہونے والا ہے، ورنہ بہت سارے ایسے لوگ بھی موجود ہیں جن کا خمیر تو اچھا تھا، لیکن کیا وہ سب کے سب امتحان الٰہی میں کامیاب ہو گئے؟ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی زندگی کا یہ وہ حصہ ہے کہ ہم اپنی نجات اور بخشش کے لیے جس کے محتاج ہیں۔

حوالہ: [کتاب] ڈھائی سو سالہ انسان [مؤلف] امام خامنه ای [ص] 125 [پبلشر] انتشارات آستان قدس رضوی [ایڈیشن] 1 [ﭘﺮﻧﭧ] 1 [پرنٹر] مؤسسہ چاپ وانتشارات آستان قدس رضوی