باطل تحریکیں جن کا اصل مقصد حصولِ اقتدار ہوتا ہے، وہ بھی کبھی کبھار (مصلحتاً) اسلام کے ظواہر پر عمل پیرا ہوتی ہیں۔ اور یہ (ان کے حق پر ہونے کی) دلیل نہیں ہے لہٰذا ضروری ہے کہ (ان کے) باطن کو دیکھا جائے اور انتہائی ہوشیاری کے ساتھ یہ تشخیص دی جائے کہ کونسی تحریک کس سے وابستہ ہے، یہ پہلی بات ہے۔

اِن دونوں تحریکوں کی پہچان اور علامت یہ ہے کہ ایک طرف اقتدار پرستی اور اقتدار کو تحفظ دینا ہے تو دوسری طرف اصول پرستی اور اقدار کا تحفظ و پاسداری ہے۔ اسلام اور اس کے بنیادی افکار؛ یعنی اسلامی اقدار کو قبول کرنا اور ان کے تحفظ کے لیے جدّوجہد اور جہاد کرنا۔ پس ایک طرف اقدار، اصول پرستی اور ان کا تحفّظ ہے اور دوسری طرف اقتدار پرستی ہے، یعنی ہر قیمت پر اقتدار کو اپنے ہاتھ میں لینا ہے خواہ کچھ بھی ہو جائے وہ اقتدار کو اپنے ہاتھ میں لینا چاہتی ہے۔

لیکن یہ باطل تحریکیں کونسے طریقے اور ذرائع سے استفادہ کرتی ہیں؟ یہ بھی ایک اہم اور توجہ طلب نکتہ ہے۔ ہمیشہ باطل تحریکیں مختلف طریقہ کار اپناتی ہیں، جیسا کہ معاویہ کا منصوبہ ایسے طریقوں پر مشتمل تھا جو اس کے اقتدار ، طاقت، تحفُّظ سے عبارت ہے۔ اس کے ہر عمل سے کسی نہ کسی حوالے سے اس کے اقتدار کے استحکام کا مقصد جھلکتا ہے۔ اس کے اقدامات میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
1۔ اپنی طاقت کا اظہار، بعض جگہوں پر وہ اپنی طاقت کا بھرپور اظہار کرتا ہے اور (اپنے مخالفین کی) بے رحمی سے سرکوبی کرتا ہے۔
2۔ دولت اور پیسہ کا استعمال، جو سازشی عناصر کے لیے ایک بہترین ذریعہ آمدنی ہے۔
3۔ تبلیغ اور جھوٹا پروپیگنڈہ۔
4۔ سیاست بازی، یعنی سیاسی طریقوں اور اوچھے ہتھکنڈوں سے اپنے مخالفین کو شکست دینا۔ وہ حربے تھے جن سے معاویہ خوب استفادہ کرتا تھا۔

حوالہ: [کتاب] ڈھائی سو سالہ انسان [مؤلف] امام خامنه ای [ص] 158 [پبلشر] انتشارات آستان قدس رضوی [ایڈیشن] 1 [ﭘﺮﻧﭧ] 1 [پرنٹر] مؤسسہ چاپ وانتشارات آستان قدس رضوی