ولی امر مسلمین سید علی خامنہ ای:
اگرامام حسنؑ بھی نہ ہوتےاور امام حسینؑ تنہا ہوتے تو اُن حالات میں بھی یہی کام ہوتا، صُلح انجام پاتی۔ صُلح کی اپنی وجوہات تھیں اور اُس سے انکار و گریز ممکن نہیں تھا۔ وہاں اُس وقت شہادت کا امکان نہیں تھا۔ مرحوم شیخ راضی آلِ یاسین ؒ اِس کتاب صلح امام حسنؑ میں(مصنف)ثابت کرتاہے کہ وہاں شہادت کی جگہ نہیں تھی، ہر قتل ہوجانے کو تو شہادت نہیں کہتے۔ خاص شرائط کے ساتھ قتل ہو نا شہادت ہے۔ وہاں (شہادت کی) وہ شرائط مہیا نہیں تھیں اور اگر امام حسنؑ اُس دن وہاں قتل ہو جاتے، تو شہیدنہ ہوئے ہوتے، قتل ہوئے ہوتے۔ امکان ہی نہیں تھا کہ اُس دن وہاں کوئی اُن حالات میں ایسامصلحت آمیز اقدام کرے کہ قتل ہو جائے اور وہ (قتل ہونا) خودکشی نہ ہو بلکہ اُس کا نام شہادت ہو۔
صُلح کے بارے میں ہم نے مختلف پہلوؤں سے بات کی ہے۔ مگر مسئلہ اب یہ ہے کہ امام حسن مجتبیٰؑ کی صُلح کے بعد کام اِس سمجھداری اور زیرکی کے ساتھ انجام پایا کہ اسلام اور اسلام کی (پاک و شفاف) تحریک، خلافت در حقیقت سلطنت کے نام پر وجود پا جانے والے آلودہ نالے میں داخل نہ ہو۔ یہ امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کا ہُنر تھا۔

حوالہ: [کتاب] انسان 250 ساله [مؤلف] امام خامنه ای [ص] 138 [پبلشر] صهبا، تھران [ایڈیشن] 2 [ﭘﺮﻧﭧ] 67 [پرنٹر] سلمان فارسی

#اقتباس #امام_حسن #ولی_امرمسلمین #250_سالہ_انسان #صلح_امام_حسن #امام_حسین