صلحِ امام حسن علیہ السلام کے بارے میں (اب تک) بہت کچھ لکھا اور کہا گیا ہے، لیکن میں یہاں پر اِس عظیم واقعے کا ایک دوسرے زاویے سے جائزہ لینا چاہتا ہوں؛ کیونکہ اِس واقعے کا تعلق تاریخ کے ایک انتہائی حسّاس موڑ سے ہے، جو اِس کی اہمیت میں اضافہ کر دیتا ہے۔ چونکہ تاریخِ اسلام مختلف قسم کے سیاسی واقعات سے بھری پڑی ہے، جیسے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم، امیر المومنین علیہ السلام اور دوسرے ائمہ معصومین علیہم السلام کے دور کے واقعات یا خلفائے بنو اُمیہ اور بنو عباس کے دور کے واقعات وغیرہ؛ لیکن صلحِ امام حسن علیہ السلام جیسے واقعات جو پوری تاریخِ اسلام پر اثر انداز ہوئے ہوں، بہت کم ہیں۔ میری نظر میں تاریخِ اسلام میں اِس قسم کے چند ایک واقعات ہی پائے جاتے ہیں جو اس طرح پوری تاریخ پر اثر انداز ہوئے ہیں۔ اِس لحاظ سے کئی صدیوں پر محیط تاریخِ اسلام میں صلحِ امام حسن علیہ السلام کا واقعہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

اِس واقعے کا ایک اہم موڑ، اسلامی خلافت کا ملوکیت میں تبدیل ہونا ہے۔ اگر ہم اس نکتے پر غور و فکر کریں تو یہ جملہ بہت ہی پُر مغز اور انتہائی اہمیت کا حامل ہے؛ کیونکہ خلافت اور ملوکیت دو الگ الگ قسم کے طرزِ حکومت ہیں، ان دونوں قسم کے طرزِ حکومت میں صرف کسی ایک، دو یا تین چیزوں میں ہی اختلاف نہیں پایا جاتا بلکہ یہ دونوں بالکل ہی ایک دوسرے سے مختلف ہیں؛ یعنی خلافت کوئی اور چیز ہے جبکہ ملوکیت (بادشاہت) دوسری چیز ہے۔ جن کا مسلمانوں اور اسلامی مملکت و معاشرے پر حکمرانی کا انداز بھی مختلف ہے۔ اس واقعے نے تاریخِ اسلام اور اسلامی طرزِ حیات کا رُخ موڑ دیا اور رُخ موڑنے کا مطلب تو آپ جانتے ہی ہیں، جیسا کہ ایک ریل گاڑی جو شمال کی طرف رواں دواں ہو اور کسی ایک مقام پر ڈرائیور اس کے ٹریک کو تبدیل کرتے ہوئے اس کا رُخ دوبارہ مخالف سمت یعنی جنوب کی طرف موڑ دے۔ البتہ یہ ایک دَم محسوس نہیں ہوتا ہے لیکن تھوڑی دیر بعد جب انسان پیچھے مڑ کر دیکھتا ہے، تب اسے احساس ہونے لگتا ہے۔ میں اس واقعے کو اس نظر سے دیکھتا ہوں۔

حوالہ: [کتاب] ڈھائی سو سالہ انسان [مؤلف] امام خامنه ای [ص] 154 [پبلشر] انتشارات آستان قدس رضوی [ایڈیشن] 1 [ﭘﺮﻧﭧ] 1 [پرنٹر] مؤسسہ چاپ وانتشارات آستان قدس رضوی