موجودہ زمانے کی جو تصویر ہمارے سامنے آتی ہے اور اس سے جو نتیجہ ہم اخذ کر کے متاثر ہو سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ لوگوں کے دلوں سے مایوسی اور نا امیدی کو نکالتے ہوئے ان کے دلوں میں اُمید کی کرنیں روشن کریں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ہمارا جہاد مؤثر اور نتیجہ بخش ہے۔ کبھی کبھار بعض ایسے لوگ جو فکر اسلامی کے اس پہلو سے ناواقف ہیں وہ دنیا کی ان عظیم مادی ترقیوں کے مقابلے میں حیرت زدہ ہو کر مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں اور یہ سوچنے لگتے ہیں کہ آخر دنیا کی ان سپر طاقتوں کا جو جدید ٹیکنالوجی اور ایٹم بم جیسے مہلک ہتھیاروں سے لیس ہیں، اگر کسی ملک میں کتنا ہی بڑا انقلاب آ جائے، بھلا وہ کیونکر ان کا مقابلہ کرسکتا ہے؟ لہٰذا وہ یہ سوچتے ہیں کہ ہم ان ظالم اور استکباری طاقتوں کا مقابلہ کرنے سے یکسر قاصر ہیں؛ لیکن عقیدۂ مہدویت پر ایمان اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کی پاکیزہ ذرّیت سے وابستہ ایک شخص کے ہاتھوں دنیا میں عالمی اسلامی حکومت کے قیام کا عقیدہ، انسان کے اندر اُمید کی کرن روشن کر دیتا ہے اور وہ یہ کہتا ہے: نہیں جناب! ہم ان کا مقابلہ کر سکتے ہیں کیونکہ آنے والا دور ہمارا ہے کیونکہ بالآخر ایسا ہونا ہی ہے کہ دنیا اُن کے سامنے سر تسلیمِ خم کرے گی اور یہ ہو کر رہے گا۔ چونکہ تاریخ کا رُخ بھی اسی سمت ہے جس کی بنیاد آج ہم نے رکھ دی ہے اور اس کا ایک نمونہ پیش کر دیا ہے اگرچہ ہمارا یہ نمونہ ناقص ہے۔ یہ اُمید اگر مجاہد اقوام کے دلوں میں زندہ ہو جائے (بالخصوص مسلمان اقوام کے دلوں میں) تو ان کے اندر بھی ایک ایسا نیا ولولہ اور جوش پیدا ہو جائے گا کہ کوئی بھی طاقت انہیں میدانِ جنگ میں قدم رکھنے سے باز نہیں رکھ سکتی اور نہ ہی انہیں نفسیاتی یا ظاہری طور پر شکست دے سکتی ہے۔

حوالہ: [کتاب] ڈھائی سو سالہ انسان [مؤلف] امام خامنه ای [ج] 1 [ص] 450 [پبلشر] انتشارات آستان قدس رضوی [ایڈیشن] 1 [ﭘﺮﻧﭧ] 1 [پرنٹر] مؤسسہ چاپ وانتشارات آستان قدس رضوی