یہ جو کہا جاتا ہے کہ عاشور وہ دِن ہے جب کربلا میں خون نے تلوار پر فتح حاصل کی۔ یہ ایک حقیقت ہے اور یہ فتح اور کامیابی حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی وجہ سے نصیب ہوئی تھی؛ ورنہ یہ خون کربلا میں ختم ہو چکا تھا اور یہ جنگ کربلا کے میدان میں بظاہر حق کی شکست کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچ چکی تھی۔ لیکن جو چیز اِس ظاہری شکست کو ایک دائمی فتح و کامرانی میں تبدیل کرنے کا سبب بنی، وہ حضرت زینبِ کبریٰ سلام اللہ علیہا کی ذات بابرکت تھی۔ اِس واقعے میں حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے جو کردار ادا کیا وہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

اِس واقعے نے یہ ثابت کردیا کہ عورت تاریخ کے حاشیے پر نہیں، بلکہ تاریخ کے اہم واقعات کے اصلی متن کا حصّہ ہے۔ قرآن مجید نے بھی متعدّد مقامات پر اس نکتے کی جانب اشارہ کیا ہے؛ لیکن یہ واقعہ گزشتہ اُمتوں سے مربوط کسی دور کا واقعہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک زندہ اور قابلِ ادراک واقعہ ہے، جہاں انسان یہ مشاہدہ کرتا ہے کہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا ایک حیرت انگیز اور تابناک عظمت کے ساتھ میدان میں اُترتی ہیں اور ایک ایسا کارنامہ انجام دیتی ہیں کہ جس کی بنا پر وہ دشمن جو اپنے مخالفین کا قلع قمع کر کے، سر پر فتح کا تاج پہن کر اپنی کامیابی اور فتح کے نقّارے بجا رہا تھا، اِسے اپنے ہی شہر، اپنے محل اور اپنے دارالحکومت میں ذلیل و رسوا ہونا پڑا اور حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے اِس کی پیشانی پر ذلّت اور رسوائی کا ایک ایسا دائمی داغ لگا دیا کہ اس کی فتح اور کامرانی، شکست میں تبدیل ہو کر رہ گئی، یہی حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا کارنامہ ہے۔ آپؑ نے اپنے اِس عمل سے پوری دنیا پر واضح کردیا کہ خواتین کے حجاب اور پاکدامنی کو مجاہدانہ وقار اور عظیم جہاد میں کس طرح تبدیل کیا جاسکتا ہے۔

حوالہ: [کتاب] ڈھائی سو سالہ انسان [مؤلف] امام خامنه ای [ص] 212 [پبلشر] انتشارات آستان قدس رضوی [ایڈیشن] 1 [ﭘﺮﻧﭧ] 1 [پرنٹر] مؤسسہ چاپ وانتشارات آستان قدس رضوی