خواتین کی سیرت اورپیغمبر خداؐ کی تائید
بعض دوسری خواتین کی سیرت کی تائید بھی ہمیں پیغمبر خداؐ کی طرف سے ملتی ہے جس سے ہمیں خواتین کے سماجی کردار کی حقیقت کوسمجھنے میں مددملتی ہے۔
خودحضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی سیرت کی تائید بھی پیغمبرِ خداؐکی طرف سے ہمیں ملتی ہے۔حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا ایک بہت ہی معتبر تاجرہ تھیں کہ پیغمبر اسلامؐ خود آپ کے پاس مشغولِ کسب وکار تھے،آپ سلام اللہ علیہاکی معاشرتی سرگرمیوں کو پیغمبرِ اسلام کی طرف سے تائید حاصل ہے۔اسلام کی بقااورتبلیغ میں حضرت خدیجہ کے سرمائے نے اپنا کلیدی کردار اداکیا یہاں تک کہ یہ بات معروف ہوگئی کہ اسلام کی ترقی دوچیزوں سے وابستہ ہے،ایک حضرت خدیجہؑ کی دولت اوردوسری امام علیؑ کی شمشیر۔
اِس کے علاوہ بھی ایسی دوسری خواتین پائی جاتی ہیں جو معاشی سرگرمیاں انجام دیتی تھیں اورپیغمبر اسلامؐ کی طرف سے اُنہیں تائید حاصل تھی۔
اُن میں سے ایک عورت عطر بیچاکرتی تھیں اُن کا نام زینب تھا خود پیغمبر اسلامؐ کافی مقدارمیں اُس سے عطر خریداکرتے تھے،وہ عورت تاریخ میں “زینبِ عطّار” کے نام سے معروف تھیں اورحدیث کی راویوں میں بھی شمار ہوتی ہیں۔
زینب کاکام یہ تھا کہ ایک صندوق میں مختلف عطر لے کر خریداروں کے پاس جاتی تھیں اورعطر کی خرید و فروش کے لیے اپنےکام کی ضرورت کی حدود میں نامحرم افراد سے گفتگوکیا کرتی تھیں اورپیغمبراسلامؐ کی طرف سے اُس پر کوئی اعتراض نہیں ہوتاتھااوراُس کی یہ سیرت پیغمبرؐ کی طرف سے مقبول قرارپاتی ہے۔
پیغمبرؐاسلام خودجب مسجد میں تشریف فرماہوتے تھےتوخواتین مسجد آتی تھیں اورمردوں کی موجودگی میں اپنےسوالات بیان کرکے پیغمبرخداؐ سے ہدایت طلب کرتی تھیں اورپیغمبرخداؐبھی اطمینان کے ساتھ جواب دیاکرتے تھے۔
اسلام کی ابتدائی جنگوں میں بہت سارے کام مثلاً وسائل اورضروری سامان میدان جنگ پہنچانا ،نرسنگ کے اموروغیرہ خواتین انجام دیا کرتی تھیں یہاں تک کہ بعض دفاعی جنگوں میں کچھ خواتین جو جنگ اورشمشیر چلانے کی مہارت رکھتی تھیں وہ مجاہدین کی مددکے لیے میدان میں اُترآتی تھیں اوراسلام اورپیغمبرخداؐ کادفاع کرتی تھیں۔
خلاصہ یہ کہ اسلام کی نظرمیں خواتین کے لیے اخلاقی شرائط کی رعایت کرتے ہوئے، سماجی سرگرمیاں انجام دینا، معیوب نہیں بلکہ بعض موقعوں پر قابلِ ستائش اورمطلوب بھی ہیں۔
اسلام میں جن سماجی سرگرمیوں میں خواتین کومنع کیاگیاہےدرحقیقت وہ سرگرمیاں سماجی امور کےزمرے میں نہیں آتی ہیں؛ سرمایہ دارانہ،لبرل اورسیکولر استعماری قوتوں نے عورت کی نمائش اور نامحرموں کے لیےزینت اورلااُبالی پن،بے حجابی اورپاکدامنی وحیا کے خلاف امورکوعورت کی سماجی سرگرمیوں کے عنوان سے متعارف کروایاہے تاکہ اُن کے شوم اورمذموم مقاصد حاصل ہوسکیں۔ اسلام میں،عورت کے لیے نامحرموں کے سامنے زینت،فحاشی،لااُبالی پن اورعورت کی پاکیزگی اورعفت،عزت وعظمت کوپامال کرنے والے اُمورکوممنوع قراردیاگیاہے۔
• نامحرم مردوں کے سامنے عورت کی نمائش ،خودنمایی اورزینت کی ممنوعیت میں دوگہری حکمتیں پوشیدہ ہیں:
ا۔گھرکے استحکام اورمضبوطی جوکہ خداکے نزدیک محبوب ترین مقامات میں سے ہےاورانفرادی اور سماجی سلامتی اورحفاظت اِس مقام کی سلامتی پرمنحصرہے اوراِس کی سلامتی کی شرائط میں سے ایک شرط ہے۔
2۔ اجتماعی میدانوں میں سالم اورصحت مندسرگرمیوں کے لیے ذہنی اورنفسیاتی سکون اورسلامتی کی برقراری۔
یورپ اورامریکہ کے معاشروں میں، کہ جہاں خواتین خودنمایی اورزینت کے ساتھ اورخدا کی طرف سے دی ہوئی اپنی کشش اور جذابیت کونامحرم مردوں کےسامنے پیش کرتی ہیں اِسی لیے وہاں پر خاندانی اورگھریلو نظام کمزور پڑتاجارہاہے اور نتیجے میں تیزی کے ساتھ نابودی کی طرف بڑھ رہاہے اورعنقریب نابودہوجائے گا۔ کیونکہ اُن کے لیے کوئی دلکشی وخوبصورتی باقی نہیں رہے گی کہ جس کے لیے خاندان اورگھرکا نظام تشکیل دیں۔ جنسی روابط اِن معاشروں میں اتنے آزاداوربے لگام ہوچکے ہیں کہ مشترکہ زندگی گزارنے اورگھربار اورخاندان کی تشکیل جیسی ذمہ داری انجام دینےکے لیے اُن میں مزیدکوئی آرزو اوردلکشی ہی باقی نہیں رہے گی۔
یہ وہ مقام ہے کہ جہاں پرمرد بتدریج خواتین کی خوبصورتی اوردلکشی سے اُکتاجائیں گے اورایسے فساد جو معاشرے کی تباہی کاسبب ہیں مثلاً ہم جنس پرستی،بچوں اورجانوروں کے ساتھ جنسی زیادتی جیسے واقعات پیش آئیں گےاورانسان،انسانیت سے خارج ہوکرتیزی سے حیوانیت کی طرف بڑھنے لگے گا اوراس کا مطلب ہے انسانی معاشرے کی موت۔۔۔