بی بی زہراءؑ کے فضائل ،مناقب اورروحانی مقامات بیان کرنا اوردرک کرنا ہرکس وناکس کے بس کی بات نہیں ہے،امُ الأَئمہ سیدہ زہراسلام اللہ علیہا بعض روایات کے مطابق خود معصومین علیہم السلام کے لیے اسوہ حسنہ اوراُن پرحجّت قرارپائی ہیں۔آپ سلام اللہ علیہاانسانِ کامل اورتمام خوبیوں اورصفات کامجموعہ بلکہ اِس سے بھی بالاترہیں۔

آپ سلام اللہ علیہا کی زندگی کا وہ پہلو جوانسانیت کے لیے نمونہ عمل ہے اورانسانیت کوکمال تک پہنچانے کاضامن ہے، جس پر ہمیں چاہیے غوراورتفکرکریں اورآپ کی زندگی سے کامیابی اورکمال تک پہنچنے کے سُنہرے اصول لیں تاکہ بھٹکی ہوئی انسانیت اور حق وحقیقت کے متلاشی، گمراہی اورانحراف سے صراطِ مستقیم اوردرست سمت کی جانب حرکت کرسکیں۔ہم یہاں پر آپ کی زندگی کے مختصرسے پہلوؤں کوایک حد تک بیان کرنے کی کوشش کریں گے اوراپنے لیے اِن پہلوؤں سے زندگی کے اُصول حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔
حضرتِ زہراء اور بندگی
انسان کی خلقت کاسب سے اصل مقصد، خدا کی معرفت حاصل کرناہے۔ وہ خداکہ جو خالق اور ربُّ العالمین ہے تاکہ اِس معرفت کے ذریعے مکمل اوردرست طریقے سے اُس ذاتِ باری تعالٰی کی بندگی کی جاسکے۔اُن شخصیات کی تلاش جوخوداِس مقصد تک پہنچے ہوئے ہو، اُن کی ہمراہی اورمعرفت بھی ہمارے لیے ضروری ہے تاکہ پختہ عزم کے ساتھ صحیح سمت پر حرکت جاری رہ سکے۔
جنابِ سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کی مختصر حیات طیبہ میں سوائے بندگی کے کچھ نظر نہیں آتا۔آپ سلام اللہ علیہا سراپابندگی کااعلٰی نمونہ ہیں۔ جب پیغمبرِ خداؐ نے امام علی علیہ السلام سے پوچھاکہ اے علی تم نے اپنی زوجہ کو کیساپایا توآپ علیہ السلام نے فرمایا: نِعْمَ الْعَونُ عَلى طَاعَةِ اللَّه۔’’میں نے اُنہیں خداکی اطاعت اوربندگی میں بہترین ساتھی پایا‘‘۔
امام حسن مجتبیٰ سلام اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’میں ایک شبِ جمعہ اپنی والدہ کودیکھ رہاتھا،پوری رات قیام،رکوع اورسجود میں مشغول رہیں یہاں تک کہ صبح کی روشنی نظرآنے لگی۔میں سُن رہاتھا کہ آپؑ ایک ایک مؤمن اور مؤمنہ کا نام لے رہی تھیں اوراُن کے لیے بہت زیادہ دُعاکررہی تھیں جبکہ اپنے لیے کوئی دعانہیں فرمائی۔میں نے آپؑ کی خدمت میں عرض کیا: “ماں جی!جس طرح آپ دوسروں کے لیے دعافرماتی ہیں اپنے لیے دعانہیں فرماتی ‘‘۔ توآپ نے فرمایا:” پہلےپڑوسی اور اُن کے بعد گھر ‘‘۔
آپؑ ہر رات بچوں کے سوجانے کے بعداورگھر کے دوسری ذمہ داریوں سے فارغ ہونے کے بعد ، جائے نماز پرکھڑی ہوجاتی تھیں یہاں تک کہ آپ کے پائے مبارک میں سوجن پیدا ہوجاتی تھی، ااورآپ کے پاؤں سیاہ پڑجاتے تھے۔
پس آپ سلام اللہ علیہا کی مبارک زندگی سے پہلا اُصول جو ہمیں لینا چاہیئے، جو زندگی کے مقصد اور خلقتِ انسان کے مقصد سے براہ راست تعلق رکھتاہے وہ اطاعت اوربندگی کاپہلوہے۔آپ سلام اللہ علیہا ہمارے لیے اِس پہلو میں بہترین نمونہ عمل قرارپاسکتی ہیں۔
آپ کی حیاتِ طیبہ سے ایک اورچیزیہاں پر ہمیں حاصل ہوجاتی ہے وہ یہ کہ سیروسلوک یعنی خداکی جانب حرکت کرنے کے میدان میں مرداورعورت ہونے کی کوئی محدودیت نہیں پائی جاتی ۔عورت اورمرد، ذاتی اعتبار سےاورانسانی حقیقت کے اعتبار سے خداکی بارگاہ میں یکساں اور برابر ہیں اورروحانی مقامات تک پہنچنے کے لیے کسی کوبھی کسی پربرتری یاسبقت حاصل نہیں ہے۔ مَنْ عَمِلَ صالِحاً مِنْ ذَكَر أَوْ اُنْثَى وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنَحْيِيَنَّهُ حَيوةً طَيِّبَةً ۔
ترجمہ: جو شخص بھی نیک عمل کرے گا وہ مرد ہو یا عورت اگر وہ صاحب ایمان ہو ہم اسے پاکیزہ حیات عطا کریں گے ۔(سورۃ نحل آیۃ 97)