شہید عماد مغنیہ ایک ایسی عظیم الشان شخصیت کا نام ہے کہ جنہیں قرآن کریم کی اِس آیت أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ کی اِس دُور میں عملی تفسیروں میں سے ایک تفسیر کہاجاسکتا ہے ۔ ایک ایسی شخصیت کہ جس نے اپنے مولا و آقا اسد اللہ ،فاتح خیبر، حیدرِ کرار کی پیروی میں اپنی زندگی گزاری اور اپنی جان بھی اپنے آقا و مولا سید الشہداء امام حسینؑ کے راستے پر چلتے ہوئے اِسی راستے پر قربان کی وہ راستہ کہ جو نبوت کا راستہ ہے ،امامت کا راستہ ہے اور ولایت کا پاکیزہ راستہ ہے ۔ شہید،ولایت کے سچے پیروکار اور ولایت کے علمدار تھے ۔ شہید عماد پوری دنیا کے حریت پسندوں اور مظلوموں کے لیے ایک اُمید اور عصرِ حاضر کی عالمی شیطانی طاقتوں کے لیے ایک ڈراؤنا خواب سمجھے جاتے تھے۔اِس مختصر مقالے میں شہید عماد مغنیہ (حاج رضوان) کی مسلسل جدوجہد سے پُر زندگی پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ مقالہ عاشقانِ ولایت کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے۔

شخصی معلومات
نام :عماد مغنیہ
لقب: حاج رضوان
والد کا نام: آیت‌ الله شیخ جواد مغنیہ
جائے پیدائش: لبنان شہرِ صور
تاریخ پیدائش:1962
تاریخ شہادت:12 فروری 2008
جائے شہادت: شام، دمشق کے نزدیک

ابتدائی تعلیم: شہید نے ابتدائی تعلیم جنوبی بیروت کے علاقے ضاحیہ میں حاصل کی، اور اُس کے بعد بیروت کی ایک امریکی یونیورسٹی (اے یو بی) میں تعلیم حاصل کی۔ شہید عماد کا گھرانہ بشمول خود پانچ افراد پر مشتمل تھا۔ آپ کی والدہ محترمہ، والد محترم اور دو بھائی جہاد مغنیہ اور فواد مغنیہ ہیں۔ آپ کے والد کا شمار لبنان کے برجستہ و معروف علما ء میں ہوتا تھا۔ 80 کی دہائی میں شہید عماد مغنیہ ۱۷فورس جو کہ فلسطین لبریشن فرنٹ کی ایک شاخ تھی سے منسلک ہوگئے جس کی ذمہ داری فلسطین کی آزادی میں سرگرم اشخاص کی حفاظت کرنا تھی۔۱۹۸۲ میں صہیونی حکومت نے بیروت کا محاصرہ کیا اور اِس تنظیم کی شخصیات اورسرگرم افراد کو لبنان ترک کرنے پر مجبور کردیا۔ اِس کے بعد شہید عماد لبنانی سرگرم تنظیم ’’امل‘‘(افواجِ مقامتِ لبنان) سے وابستہ ہوگئے جس کے بانی امام موسیٰ صدر اورشہید چمران تھے۔ حزب اللہ کی تأسیس کے بعد عماد مغنیہ حزب اللہ سے وابستہ ہوگئے اوراپنی شہادت تک وابستہ رہے۔ حزب اللہ سے وابستہ ہونے کے بعد حزب اللہ کی اہم شخصیات کی حفاظت پر مأمور ہوگئے اوراِس کے بعد حزب اللہ کی اسرائیل کے خلاف بنائی جانے والی اسپیشل فورس کے عہدیدار کے طور پر منتخب ہوئے۔

امریکی حکومت اوربالخصوص اسرائیلی جعلی حکومت شہید عماد کو ہمیشہ اپنے لیے ایک بڑا خطرہ سمجھتی تھی۔ صہیونی جعلی حکومت نے اسرائیل اورحزب اللہ کے درمیان ہونے والی ۳۳روزہ جنگ سے پہلے دو اسرائیلی فوجیوں کے اغوا کرنے کا الزام بھی شہید عماد مغنیہ پر عائد کیا۔ امریکی ایجنسی (سی آئی اے) نے بھی اسرائیل کے خلاف مختلف کاروائیوں میں شہید عماد مغنیہ کے ملوث ہونے کے الزامات عائد کئے۔ شہیدعماد مغنیہ صہیونی اورامریکی حکومت کے لیے ایک ڈراؤنے خواب کی صورت اختیار کرگئے تھے ۔ تقریباً ۴۲ممالک کی خفیہ ایجنسیز شہید عماد مغنیہ کی تعقیب میں تھیں، شہید عماد مغنیہ ہمیشہ میڈیا کے سامنے خود کو ظاہر کرنے سے گریز کیا کرتے تھے۔

آپ کے والد گرامی آیت اللہ شیخ جواد مغنیہ سیاسی سرگرمیوں سے دور تھے، البتہ آپ کی والدہ محترمہ خواتین میں مختلف اسلامی سیاسی سرگرمیوں میں مصروف عمل رہتی تھیں۔شہید عماد مغنیہ اپنی جوانی میں ہی حج کے مقدس فریضے سے مشرف ہوئے، سید مقاومت حسن نصراللہ آپ کو’’حاج رضوان‘‘کے لقب سے پکارتے تھے۔حزب اللہ کی تأسیس کے بعد شہید عماد مغنیہ آیت اللہ محمد حسین فضل اللہ کے محافظوں میں سے تھے جو کہ اُس زمانے میں حزب اللہ کے معنوی رہبر سمجھے جاتے تھے۔

۱۹۸۵میں شہید عماد مغنیہ کے ایک بھائی جہاد مغنیہ صہیونی فوجیوں کے ہاتھوں شہادت کے مرتبے پر فائز ہوئے، کچھ ہی عرصے بعد شہید عماد مغنیہ کے ایک اور بھائی فؤاد مغنیہ بھی صہیونی درندوں کے ہاتھوں ایک بم دھماکے میں کہ جس کا اصل ہدف عماد مغنیہ تھے، شہادت کی منزل پر فائز ہوگئے۔ اِس طرح آپ کے دو بھائی جہاد مغنیہ اور فواد مغنیہ صہیونی حکومت کے خلاف مبارزے اور مقابلے کی حالت میں شہادت کی منزل پر فائزہوئے۔شہید عماد مغنیہ نے اپنے فرزند کانام بھی اپنے بھائی کے نام پر جہادمغنیہ رکھا جو حال ہی میں صیہونی درندوں کے ہاتھوں جام شہادت نوش کرگئے،اِس طرح شہید عماد مغنیہ کے دوبھائی اورایک بیٹا شہادت کی منزل پر فائز ہوئے۔

۱۹۸۲ میں عماد مغنیہ نے تین مختلف آپریشنز کی ذمہ داری سنبھالی؛ یہی چیز سبب بنی کہ امریکہ اورفرانس کی ایجنسیز شہید عماد مغنیہ کی تلاش میں تیزی سے سرگرم ہوگئیں۔اپریل ۱۹۸۳ میں بیروت میں موجود امریکی سفارت خانے میں بم دھماکہ اور ۶۳امریکی فوجیوں کا واصل جہنم ہونا، اِس کے علاوہ بیروت میں ہی ایک امریکی فوجی کیمپ پر حملہ اور ۲۴۱ قابض امریکی فوجیوں کی ہلاکت، بقعہ کے علاقے میں فرانسیسی فوجی کیمپ پر حملہ اور ۵۸ قابض فرانسیسی فوجیوں کے واصل جہنم ہونے میں شہید عماد مغنیہ کا مرکزی کردار رہا جس کے نتیجے میں قابض فرانسیسی اورامریکی قابض افواج، لبنان ترک کرنے پر مجبورہوئیں۔ اور اِس طرح اِس شیطانی افواج سے لبنان کے عوام بالخصوص مسلمانوں کو نجات ملی۔ اِس طرح شہید عماد مغنیہ حزب اللہ میں اسپیشل ٹاسک کے ماہر کے طور پر مشہور ہوگئے۔

شہید عماد اس آپریشن کے بعد دو سال تک روپوش رہے اور اِس کے بعد ایک امریکی جہاز کے اغوا کی ذمہ داری بھی شہید عماد مغنیہ پر عائد کی گئی۔۱۹۹۰ میں عالمی میڈیا نے شہید عماد کے بیروت میں ظاہر ہونے کی خبریں نشر کیں۔ شیطانِ بزرگ امریکہ نے شہیدعمادمغنیہ کے سرکی قیمت ۲۵میلیون ڈالر معین کی اوراِس کے ساتھ ساتھ ۴۲ ممالک کی استعماری ایجنسیزشہید عماد مغنیہ کی تلاش میں شب و روز سرگرم تھیں، ۸ صہیونی ایجنسیز جومسلسل شہید کی تلاش میں تھیں، شہید کی سرگرمیوں کوروکنے میں ناکام، ناتوان اورعاجز رہیں۔بالآخرعمادمغنیہ۱۲ فروری ۲۰۰۸ شام کے دارالحکومت دمشق میں انسانیت دشمن امریکی اور صہیونی ایجنسیز اور اُن کے نمک خوار منافقین کی مدد سے ایک بم دھماکے میں شہادت کی منزل پرفائز ہوگئے ۔

شہیدعمادمغنیہ کی والدہ گرامی جو کہ ایک عظیم خاتون اورحضرت زینب سلام اللہ علیہا کی حقیقی پیروکاراوراُن کی عظیم الشان سیرت کا عملی نمونہ تھیں، آپ فرماتی ہیں کہ’’ شہید عماد مغنیہ کی شہادت حزب اللہ کی خدمت میں میری طرف سے ہدیہ ہے‘‘۔ اور فرماتی ہیں کہ: حاج عماد نے تمام چیزیں شہید مصطفیٰ چمران سے سیکھیں، وہ شہید چمران کوکرداراوراخلاقیات میں نمونہ عمل بناتے ہوئے خود کوشہید چمران کا شاگرد سمجھتے تھے۔

شہید عماد کی والدہ محترمہ نے اِس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ کس طرح سے اپنے تین فرزندوں کی شہادت پر صبر کا مظاہرہ فرمایا؟ کہتی ہیں:’’حضرت زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا میرے لیے اور تمام شیعیان کے لیے اسوہ اورصبرکا نمونہ ہیں، جب بھی اُس عظیم بانو کی مصیبتیں یاد آتی ہیں تواپنے بیٹوں کی شہادت پر بے قراری اور شکوہ کرنے پر شرم محسوس ہوتی ہے‘‘۔

ناصرِ ولایت ،مالکِ اشترِزمان جنرل قاسم سلیمانی کہتے ہیں کہ:’’شہیدعمادمغنیہ کا نام دشمن کے لیے وحشت و رعب و دبدبہ اور دوستوں کے لیے نشاط کا باعث ہے‘‘۔

آخر میں شہید عماد مغنیہ کی شہادت پر ولی امرمسلمین جہان سیدعلی خامنہ ای حفظہ اللہ کاتعزیتی پیغام پیش خدمت ہے۔
بسم اللہِ الرحمٰنِ الرحیم
محترم بھائی حجۃالسلام والمسلمین سید حسن نصراللہ، مخلص، مجاہد اورفداکاربھائی جناب حاج عمادمغنیہ کی شہادت ،خود اُن کے لیے سراپا عشق اور جہاد فی سبیل اللہ کے جوش ولولہ سے پرُ تھی اور ایک عظیم مرتبہ اورسرانجامِ سعادت کی حامل ہے اور لبنانی قوم کے لیے بھی کہ جنہوں نے ایسےعظیم مرد کی پرورش کرکے آزادی کی طلب اور ظلم و ستم کے خلاف مبارزہ و مقابلے کے لیے پیش کیا جوسربلندی اور سرفرازی کے لیے سرمایہ ہے۔
اِس آزاد، فداکاراور برجستہ مرد کا فقدان اگرچہ تمام شریف انسانوں اوراُن تمام لوگوں کے لیے جواُنہیں پہچانتے تھے بالخصوص اُن کے محترم والدین، زوجہ اورپیارےبچوں اورعزیزواقارب اوردوستوں کے لیے دردناک ہے، لیکن زندگی اورموت اُن جیسے انسانوں کے لیے ایک حماسہ(عظیم کارنامہ) ہے جو قوموں کوبیدار کرتا ہے اورجوانوں کے لیےایک مثالی نمونہ بن جاتاہے اورروشن آفاق اورتمام انسانوں کومنزل تک پہنچنے کے لیے رہنما بن جاتا ہے۔
خونخوارصہیونی اورتمام مجرمان جان لیں کہ عمادمغنیہ جیسےشہداءکےپاکیزہ خون سے سینکڑوں عماد پیدا ہوتے ہیں اور ظلم، فساد اور طغیان کے سامنے مقاومت اور مجاہدت دوگنی کردیتے ہیں۔ اِس محترم شہید جیسےمرد کہ جنہوں نے اپنی زندگی، آسائش اور اپنی مادّی زندگی کے فوائد کو مظلوم کے دفاع اور ظلم واستکبار سے مبارزے پر فدا کردیا، یہ چیزبہت قدروقیمت کی حامل ہے کہ جس کی تعظیم میں تمام انسانی ضمیریں اپنے سروں کو جھکا دیتی ہیں۔ خدا کی رحمت و خوشنودی اُس (شہید) پر اور تمام راہِ حق کے مجاہدین پر ہو۔میں اِس عظیم شہادت پرآپ کو اور اُن کے محترم خانوادے کو اور حزب اللہ کے سرفراز جوانوں اور مقاومت کو اور تمام لبنانی قوم کو مبارکباد اور تسلیت عرض کرتا ہوں۔
و السلام علیہ و علیکم و رحمۃ الله
سید علی خامنہ ای