عرفان اسلامی کے بارے میں تین اہم نکات:
1۔پہلی چیز یہ کہ ایک خاص دستورالعمل ہے اِس دستورالعمل کو پیش کرنے والوں کایہ دعویٰ ہے کہ یہ دستور العمل انسان کو شہودی، قلبی و باطنی معرفت اورخداوندِمتعال، خدا کے اسماء حسنٰی اور صفاتِ اعلٰی اور اُنکے مَظاہر تک پہنچاتا ہے۔
2۔دوسری چیزیہ کہ روحانی اور ذہنی خاص حالات، کیفیات اور ملکات کہ جس کے نتیجے میں مکاشفات اورمشاہدات جو سالک(روحانی راستے پر چلنے والے) کو حاصل ہوتے ہیں۔
3۔تیسری چیز یہ کہ اِن حضوری اور شہودی طور پر حاصل شدہ مشاہدات کو بیان کرنا، نقل کرنا اور حتٰی اُن لوگوں کے لیے بھی بیان کرنا جو خود سے عرفان یا روحانیت کے راستے پر نہیں چل رہے ہیں اگرچہ حق و حقیقت کو پانا اوراُس کی تہہ تک پہنچنا سچے اور حقیقی عارفوں سے مختص ہے۔
دی گئی وضاحت کے بعد یہ چیز واضح ہو جاتی ہے کہ حقیقی عارف وہ ہوتا ہے جو ایک خاص اسلامی تعلیمات سے اخذ کئے گئے دستورالعمل کی پابندی کرتے ہوئے خداوندِ متعال کی صفات وافعال کی شہودی اور حضوری معرفت حاصل کرے۔

اِس اصطلاح یعنی عرفان کو اگر اِس کےحقیقی معنوں میں نہ لیتے ہوئے اِس کے معنی کو وسعت دی جائے اور عرف عام کے لحاظ سے تمام سیر و سلوک کے راستوں کو جو حقیقت کو پانے اورنجات و فلاح تک پہنچنے کی غرض سے انجام دئے جاتے ہیں اور اِن سے حاصل ہونے والے روحی اور شہودی حالات کو بھی عرفان کا نام دیا جائے تو مثلاً ہندو، بودائی اور افریقا کے مقامی قبائل میں موجود روحی ریاضتیں بھی عرفان میں شامل ہو جائیں گی جس طرح سے دین کالفظ بُدہ ازم، توتم پرستی اور اِس طرح کے دوسرے ازم پر عُرفی طور پر اطلاق کیا جاتا ہے۔البتہ یہ تمام عرفان جو خود ساختہ اور قرآن و سنت سے اخذ نہ کیا گئے ہو حقیقی عرفان کے زمّرے میں نہیں آتے ہیں۔ وہ عرفان کہ جوقرآنی آیات، پیغمبر خداؐ اور معصومین علیہم السلام کے فرامین و سیرت سے مطابقت نہ رکھتا ہو اور اخذ نہ کیا گیا ہو اِسے در حقیقت عرفان حقیقی نہیں کہا جا سکتا ہے بلکہ اِسے جعلی، خودساختہ یا کاذب عرفان کہا جاتا ہے۔

عرفان اسلامی کی حقیقت
اگرکوئی قرآن کریم کی آیات، پیغمبرِ اکرمؐ اور اہل بیت اطہار علیہم السلام کی سیرت طیبہ اور فرامین کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کرے تو اُسے فراوان بلند و بالا اور گہرے مطالب عرفان اور سیر و سلوک کے حوالے سے اور بہت سارے آداب اور دستورالعمل عرفانی سیر و سلوک کےحوالے سے مل جائیں گے۔ مثال کے طور پر سورہ توحید، سورہ حدیدکی ابتدائی آیات اور سورہ حشر کی آخری آیات اور اِسی طرح سے دوسری آیات جو کائنات میں خدا کے حضور اور خدا کا تمام موجودات پراحاطہ، تمام مخلوقات کا خدا کی تسبیح اور سجدۂ تکوینی کرنا، اِس طرف اشارہ اور دلالت کرتی ہیں۔

اور اِسی طرح سے وہ آیات مبارکہ جن میں خاص آداب اور سنن پائے جاتے ہیں انہیں سیر و سلوک کے آئین کا نام دیا جا سکتا ہے مثلاً قرآنی آیات میں تفکر اور تأمل کی دعوت، ذکر، دائمی توجہ، سحر خیزی، شبِ داری، روزہ داری، راتوں میں طولانی سجدے اور حمد و تسبیح، اخبات(حقیقت و ایمان باطنی)، خدا کے حضور گریہ و زاری، خاص آیات کی تلاوت اور سننے کے دوران سجدے میں چلے جانا، رضایت خدا تک پہنچنے کے لیے خدا کے ساتھ عشق و محبت، توکل سے مربوط آیات اور اِسی طرح پیغمبرِؐ خدا اور آئمہ اطہارؑ سے مروی دعائیں اورمناجات کہ سب کا ذکر کیا جانا یہاں پر ممکن نہیں ہے یہ سب عرفانی مطالب پر دلالت کرتے ہیں۔

عرفان کے حوالے سے تین گروہ پائے جاتے ہیں 1۔تفریطی گروہ۔ 2۔افراطی گروہ۔ 3۔حقیقی عرفان کا معتقد گروہ
تفریطی گروہ وہ ہے جو تنگ نظری، سطحی نگاہ رکھتا ہے اور اِن آیات و فرامین کو عام و سطحی و ظاہری معنوں میں لیتاہے، یہاں تک کہ ظاہری معنی کو لیتے ہوئےخداوندِ متعال کی جسمانیت اور خدا کے حالات میں تغیّر و تبدیلی کا قائل ہو گیا ہے یہ وہ طبقہ ہے جو مکمل طور پراسلامی متون میں عرفان کے وجود کا انکار کرتا ہے۔

دوسرا طبقہ وہ ہے جو مختلف اجتماعی، سیاسی اسباب کے زیراثر آکر غیر اسلامی چیزوں کو عرفان کے نام سے قبول کرتا ہے جس کے نتیجے میں اِن چیزوں کو کتاب و سنت سے ثابت بھی نہیں کیا جاسکتا ہے بلکہ بعض چیزیں تو واضح طور پر نصوص کے خلاف اور غیر قابلِ توجیح و تفسیر ہیں۔ در حقیقت اِس طبقے نے غیر اسلامی فرقوں سے یہ آداب و رسومات لئے ہیں اور عموماً یہ طبقہ شرعی تکالیف سے عارف کو بری الذمّۃ سمجھتا ہے اور غیر معتبر اعمال و حرکات کو عرفان میں داخل کرتا ہے۔

تیسرا گروہ وہ ہے جو ایسے عرفان و روحانیت کا معتقد ہے جو خالص اسلامی تعلیمات سے اخذ کیا گیا ہو جس کی تائید قرآن و سنت معصومین ؐ سے حاصل کی گئی ہو، یہ گروہ دین و شریعت کا تابع اور پابند ہوتا ہے۔ یہ گروہ حق و حقیقت تک پہنچنے کا واحد اور اصلی ذریعہ، اسلام کی حقیقی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کو سمجھتا ہے، حقیقی اسلامی تعلیمات سے دوری کو گمراہی سمجھتا ہے۔