قرآن کریم، آسمانی کتابوں میں سب سے آخری کتاب اور آنحضرت ؐ کا جاودانی معجزہ ہے، یہ ایسی کتاب ہے جس میں ہر خشک و تر موجود ہے اوراسی لئے تمام علوم کا سرچشمہ ہے۔ اس وقت دنیا بھرمیں مختلف علوم کے بے شمار شعبے موجود ہیں جن پر کام ہورہا ہے اور بہت سے محققین اور اسکالر حضرات تحقیق اور ریسرچ کر رہے ہیں لیکن اسکے باوجود ابھی اور بہت سے علمی شعبے تشنہ باقی ہیں جن پر کام کرنے کی ضرورت ہے اور انہی شعبوں میں سے ایک، قرآنی علوم انسانی ہے، جس پر کام کرنے کی ضرورت ہے اور اس شعبے میں بہتر طریقے سے کام کرنے کی صورت میں ہمارے بہت سے سماجی مسائل سمیت دنیا کی بہت سی مشکلات آسان ہوسکتی ہیں، چنانچہ آج سے چالیس برس قبل ڈاکٹر علی شریعتی نے اسی نکتے کی جانب توجہ دلاتے ہوئے قرآنی اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں سماجیات اور تاریخ سے متعلق اپنے شعبے پر کام کرنے کیلئے اقدام کیا تھا مگر موت نے انہیں مہلت نہیں دی اور یہ موضوع اپنی جگہ تشنہ باقی رہا۔

اس ضمن میں ڈاکٹر علی شریعتی سے منقول جملے کی وضاحت پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر حسن عباسی نے اس موضوع کی بہترین انداز میں تشریح پیش کی اور ڈاکٹر علی شریعتی کے جملے کی اہمیت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے گزشتہ ادوار میں اسلامی جمہوریہ ایران کے سربراہان مملکت اور اسپیکر حضرات کو جو دشواریاں پیش آئیں ان کی جانب اشارہ کیا ہے۔ چنانچہ وہ دشواریاں کیا ہیں؟ اور ان سے نمٹنے میں ڈاکٹر علی شریعتی کی بات کس قدر معاون و مددگار ثابت ہوسکتی ہے؟ آئے دیکھتے ہیں ڈاکٹر حسن عباسی کی اس ویڈیو میں۔

#ویڈیو #ڈاکٹر_حسن_علی_عباسی #ڈاکٹر_شریعتی #سربرہان #انقلاب_اسلامی #قرآن #اسلام #علوم_انسانی #جملہ #سائنس #سماجیات #تاریخ #مفاہیم #عناصر #دفاع_مقدس #جنگ

کل ملاحظات: 1051