اسلام نابِ محمدی اور امریکی اسلام کی تعریف
اسلام نابِ محمدی:اسلام نابِ محمدی سے مراد وہی حقیقی اور اصلی اسلام ہے کہ جس کے سرور وآقا پیغمبرِ اکرمؐ اور جوبغیر کسی ردوبدل کے امیرالمؤمنین علی ابنِ ابی طالبؑ اوراُن کے بعدبقیہ اَئمہ ہُدیٰ علیہم السلام کے پاس منتقل ہواہے اور قول ،عمل اورعقیدے میں اور کردارمیں اِسی اسلام کی پابندی کی گئی ہے اوریہی خالص محمدی اسلام اَئمہ ہدیٰ کے ہاتھوں نسل در نسل ہوتے ہوئے ہم تک پہنچاہے۔یہ چیز یقینی ہے کہ اسلامِ ناب یعنی خالص اسلام اپنے تمام اجزاء کے ساتھ منظورِنظرہےاوراِس کے اجزاء سے کمی یا اضافے کی صورت میں تحریف شدہ یا ناقص کہلائے گا اور اِیسے اسلام کاخالص ہوناقابلِ قبول نہیں ہوگا کیونکہ درحقیقت یہ کمی اور اضافہ کرنا اسلام کی حقیقت اور حقیقی اسلام میں تحریف اور تغییر کا سبب بن جائے گا اورایسا اسلام عملی طور پر حقیقی اسلام سے بہت دور ہوجائے گا۔

کبھی ایسے تحریف شدہ اسلام میں فقط ظاہری دین داری باقی رہ جاتی ہے کہ جس میں اسلام اور الہی دین کی حقیقت نظر نہیں آتی ہے۔ لہٰذا ایسے تحریف شدہ اسلام کے ماننے والے آسانی سے طاغوتوں اورستمگروں کی خدمت میں مصروف ہوجاتے ہیں اورایسا اسلام عملی طور پر کبھی بھی محرومین اور مستضعفین اور مظلومین کا حامی نہیں ہوگا بلکہ طاغوت اورظالموں کے ظلم وستم کی توجیہ کرنے والابن جائے گا۔اور ایسے اسلام کے حامی ہمیشہ ظالموں اورجابروں کے ظلم وستم اورغارت گری کی شرعی توجیہ تلاش کرنے اورمظلومین اورستائے گئے لوگوں کی آواز دبانے اوراُن کا گلہ گھونٹنے کاباعث بن جاتے ہیں۔امام خمینی رضوان اللہ علیہ اِس تحریف شدہ ،دکھاوے اوربے بنیاد اسلام کو جوطاغوتوں اورمستکبروں کی کسی بھی قسم کی کوئی مخالفت نہیں کرتا ،اورصدائے احتجاج بلند نہیں کرتا ،ایسے اسلام کو امریکی اسلام کا نام دیتے ہیں۔یہ اسلام درحقیقت محمدی ؐاسلام کی روح کے خلاف ہے۔

امام خمینی رضوان اللہ علیہ خالص محمدی ؐاسلام اورامریکی اسلام اور اِن دونوں کے درمیان فرق کے بارے میں کئی تاکید فرماتے ہیں اور واضح و صاف انداز میں اِن دو اسلام کی بارے میں بیان فرماتے ہیں اوردونوں کی خصوصیات بیان فرماتے ہیں۔
آپ اپنے ایک پیغام میں فرماتے ہیں کہ’’اےمیرے عزیز جہادی فرزندوں! فقط جس چیز کے بارے میں آپ کو فکر کرنی چاہیئے وہ اسلامِ نابِ محمدیؐ کی بنیادوں کومظبوط کرنا ہے،وہ اسلام کہ جو مغرب اوراُس میں سرِ فہرست جہان خوار(استعمار) امریکہ اورمشرق میں سرِ فہرست تباہی وبربادی پھیلانے والے سوویت یونین کی آبرو خاک میں ملائے ،وہ اسلام کہ جواُن پا برہنہ لوگوں(محروموں)،مظلوموں اور غریبوں کا پرچمدار ہے اوراُ س( اسلام) کے دُشمن ملحدین،کافرین اور سرمایہ دار اورمال پرست لوگ ہیں۔

وہ اسلام کہ جس کے حقیقی حامی ہمیشہ مال اورقدرت سے خالی لوگ ہوتے ہیں اورجس کے حقیقی دشمن مال وزر ذخیرہ اندوزی کرنے والے مکار اور حکومت پر مسلّط مداری اوربے ہنر مقدس نما لوگ ہیں‘‘[5]۔امام خمینی رضوان اللہ علیہ ایک دوسرے اپنے پیغام میں فرماتے ہیں کہ:’’جی ہاں! وہ مذہب جو اسلامی اور غیر اسلامی ممالک کا مادی اور روحانی سرمایہ بڑی طاقتوں اور(دیگر) طاقتوں کے اختیار میں دینے کا وسیلہ بنتاہے اورعوام میں یہ نعرہ بلندکرے کہ دین ،سیاست سے جُداہے،(ایسا مذہب )معاشرے کے لیے ایک طرح کا’’ نشہ ‘‘ہے۔لیکن ایسا مذہب درحقیقت مذہب ہی نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا مذہب ہے جسے ہماری عوام امریکی مذہب کا نام دیتے ہیں‘‘۔[6]

امام خمینی رضوان اللہ علیہ نے ایک اور جگہ پردونوں اسلام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایاہے:آپ کو چاہیئے کہ یہ بتلادیں کہ عوام نے کس طرح سے ظلم وستم ، جمود اورمایوسی کے خلاف قیام کیا اورخالص محمدیؐ اسلام کی فکر کو حکومتی اسلام، سرمایہ دارانہ اسلام، ملاوٹی اسلام،اور ایک لفظ میں امریکی اسلام کی فکرکی جگہ پرلے کر آگئے ‘‘[7]۔

ایک اور اپنے پیغام میں دونوں قسم کے اسلام کی تصویر کشی فرماتے ہیں:’’تنہا وہ ہنر قرآن کے لیے موردِ قبول ہے جو خالص محمدیؐ اسلام،اَئمہ ہدیٰ علیہم السلام کے اسلام،مصیبت زدہ فقراءکے اسلام،محروم لوگوں کے اسلام،تاریخ کے تلخ اورشرمناک محرومیت کے تازیانے کھانے والوں کے اسلام کوجلابخشنے والا ہو۔ ایسا ہنر زیبا اورپاکیزہ ہے جوجدید سرمایہ داری ،خونخوار کمیونیزم اور نمایشی اورآسایشی اسلام،ملاوٹی اسلام،جوڑتوڑ اورپستی والا اسلام اور آرام طلب بے درد لوگوں کا اسلام اور ایک لفظ میں امریکی اسلام کو کچلنے والاہو‘‘[8]۔

البتہ ممکن ہے بعض لوگ عقیدے اورفکری لحاظ سے خالص محمدیؐ اسلام کو قبول کرتے ہوں لیکن عمل کے مقام پر امریکی اسلام کو ماننے والے مسلمان ہوں۔اِسی طرح سے ممکن ہے کہ بعض لوگ عمل کے مقام پر خالص محمدی اسلام کے نزدیک ہو لیکن قول ،عقیدے،معرفت اورفکری لحاظ سے انحراف کی طرف گامزن ہوں اور اِس لحاظ سے امریکی اسلام کے نزدیک ہوں۔اس لحاظ سے خالص اسلام قول ،فعل،عقیدے اور کردار میں عمومیت رکھتاہے یعنی یہ سب خالص اسلام کے ذیل میں آتی ہیں،اور درحقیقت انسان کی شخصیت اور وجود کے تمام پہلوؤں کو اپنے اندر سمیٹے ہوا ہے۔

معرفتی ،اعتقادی،روحی اور نفسیاتی،عاطفی اور احساساتی،اخلاقی وتربیتی،عبادی اور عملی،فقہی و سیاسی ،معیشتی اور اقتصادی خلاصہ یہ کہ تمام انفرادی اوراجتماعی پہلو خالص محمدیؐ اسلام میں شامل ہیں۔لہٰذا خالص اسلام میں دین کے تمام اجزاء اور پہلو مدِّنظر رکھے گئے ہیں اوراِن میں سے بعض پہلوؤں کو ترک کرنا یا کوئی چیز اِن میں اضافہ کردینا خالص محمدی ؐاسلام سے خارج ہونے کے برابرہے۔

خالص محمدی اسلام کی حدود اور پہلوؤں پر ایک اجمالی نظر
دین شناسی کے پہلو میں،خالص محمدیؐ اسلام ہر قسم کی سطحی وظاہری نگاہ،فکری جمود کا مخالف ہے اور ہمیشہ نقد،جستجو ، شکوفایی اوررُشد ونموکا حامی ہے۔اورخالص محمدیؐ اسلام کبھی بھی جدید افکار پر کفر اورفسق کی مہر لگا کر اُس کی مخالفت نہیں کرتا بلکہ درست اوراصولی سنتوں کی پابندی کرتے ہوئے،برہان اور استدلال کے ساتھ کئے جانے والے نقد ونظر کی تائید بھی کرتاہے اور تاکید بھی کرتاہے ۔جدید اور کارآمد طریقوں سے استفادہ بھی کرتاہے اور کبھی بھی کئے جانے والے سوالات ، مسائل اور فکری مشکلات سے فرار نہیں کرتاہے بلکہ جدید مسائل ، عصرِ حاضر کے تقاضوں اور ضروریات پر گفتگو کرنا اور اُن کا حل پیش کرنا درحقیقت خالص محمدیؐ اسلام کے پیروکاروں کا اصلی ترین کام اور مشغلوں میں سے ہے۔

خالص محمدیؐ اسلام کے مطابق دین کمال اور جامعیت کاحامل ہے جو فقط قرآن اور سنت کے ظواہر پر اکتفاء نہیں کر تا بلکہ یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ کتاب اور سنت ظاہر وباطن کا حامل ہے بلکہ قرآن وسنت کے خود باطن کا بھی ظاہر اور باطن ہونے پر یقین رکھتاہے۔اِس نقطہ نگاہ سے پورے دین کا خلاصہ فقط فقہ اور احکام پر نہیں کیا جاسکتا لہٰذافقہ اوراحکام فقط دین کے ظاہری اورعملی پہلوؤں پرمشتمل ہیں۔

خالص محمدی ؐاسلام میں دین کے عقلانی اورباطنی پہلوؤں کی شناخت کے لیے اور اُن تک رسائی کے لیے عقل اور فلسفے کو اوزارکے طور پر استفادہ کیا جاتاہے لہٰذا خالص محمدی ؐاسلام نہ یہ کہ فقط مخالفت نہیں کرتا بلکہ فکری مشکلات کو کشف کرنے اور حل کرنے کے لیے منطق اور فلسفے کو وسیلے کے طور پر استعمال بھی کرتاہے۔اِسی طرح روحانی کشف وشہود اور سیروسلوک کی نہ فقط مخالفت نہیں کرتا بلکہ روحانی پہلوؤں اوردین کےا سرارکی معرفت حاصل کرنے کے لیے اور کشف،شہود اور سیر وسلوک سے استفادہ بھی کرتاہے۔
5ـ صحیفہ نور،ص 59
6ـ ایضاًص 69، گورباچف کے نام پیغام
7ـ ایضاً ص 74
8ـ ایضاًص 30